حالاتِ حاضرہ پر لٹریچر کدھر؟
میں زیادہ نہیں جانتا، نہ ہی زیادہ جاننے کا مجھے کوئی دعویٰ رہا ہے۔ لیکن جو محسوسات ہیں، وہ تو کہہ سکتا ہوں نا۔ ہم اہلِ سنّت کے یہاں لٹریچر کا بہت بڑا فقدان ہے۔ ہر موضوع پر کتابیں دستیاب کبھی نہیں ہوتیں، پتہ نہیں یہ کمی کب پوری ہوگی۔ بلکہ لکھنے والوں کو شعور ہی نہیں کہ کن موضوعات پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ حالاتِ حاضرہ پر ہمارے لکھنے والوں کی نظر نہیں ہوتی، اس لیے حالاتِ حاضرہ میں جو مسائل درپیش ہیں، اس پر کتابیں تقریباً نہیں کے برابر ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں تو لٹریچر کی بہتات ہے۔ حالانکہ وہاں بھی بدمذہبوں کا لٹریچر سنیوں سے زیادہ ہی ہے۔
سب سے اہم کمی دنیا دار پڑھے لکھے طبقے کے لیے ہمارے یہاں کوئی لٹریچر ہی موجود نہیں ہوتا۔ پھر کس طرح پڑھا لکھا طبقہ ہم سے جڑے گا، پھر کس طرح پڑھا لکھا طبقہ ہمارے قریب آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ذاکر نائک جیسا ایک دنیا دار ڈاکٹر قرآن و حدیث سے حوالے سے تقریر کرتا ہے تو پڑھے لکھے افراد کو کافی متاثر کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کمی کوکوئی ایسا ہی شخص پُر سکتا ہے جو دین و دنیا دونوں کی ہی بھرپور معلومات رکھتا ہو، جس بندے میں تصلب فی الدین بھی ہو اور دنیاوی تعلیم میں بھی آگے ہو۔
احقر نےہمیشہ کوشش کی ہے کہ اہل سنت کا جدید لٹریچر جدید لب و لہجے میں شائع کرکے عام کیا جائے، اس میں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ لیکن جب اس قسم کے لٹریچر کا ہی فقدان ہوگا تو بندہ کام کیسے کرے گا۔ خیر اللہ کا کرم ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، لیکن احقر نے مایوس ہونا سیکھا ہی نہیں۔ کیوں کہ احقر کوئی اپنے گھر کا ذاتی کام تو کر نہیں رہا جس کے لیے مایوسی ہو، یہ تو دین و سنیت کا کام ہے، اللہ کریم کا کام ہے وہی کام لے رہا ہے، اور وہی کام لے لے گا جب وقت پڑے گا۔ بس نیت نیک رکھتے ہوئے کام کرتے جانا ہے۔
سوشل میڈیا نے حالات میں یکسر تبدیلی پیدا کردی ہے، اب لوگ سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں اور اس کے فوری اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نوجوان نسل بھی فوری نتائج چاہتی ہے، تاکہ ان کو اپنے کام کے رزلٹ کا پتہ چل سکے۔ لیکن لکھنے کا یہ پروسیس، یہ عمل بہت دھیما دھیما ہے۔ یعنی مسلسل اور مستقل لکھتے رہنا ہوگا، تبھی بندہ اچھا لکھ سکے گا اور تبھی لوگوں میں اس کی تحریروں کی اہمیت اجاگر ہوگی۔ سوشل میڈیا پر چند لوگوں کو جانتا ہوں جو گذشتہ چند سالوں سے بہت اچھا لکھ رہے ہیں اور ان کی تحریریں نہایت مقبول اور سب سے زیادہ جاتی ہیں۔ ان میں سے پہلا نمبر ہے محترم قاری لقمان شاہد صاحب کا، جن کے مطالعے کی داد دینا پڑتی ہے۔ وہ مختصر پیغامات لکھتے ہیں اور اپنی تحریروں میں اسلاف کی کتب کے حوالے مندرج کرتے ہیں، اس سے تحریر کا استناد بڑھ جاتا ہے۔ برصغیر میں سب سے زیادہ ان ہی کی تحریریں پسند کی جاتی ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ کاپی پیسٹ کرکے عام بھی کرتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ تو سرقہ کرکے عام کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر برادرم غلام مصطفےٰ نعیمی ہیں، جو سیاسی، سماجی، مذہبی، غرض کہ ہر موضوع پر بہت عرق ریزی سے تحریریں لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں بھی بہت مقبولِ عوام و خواص ہیں۔ ویسے تو لکھنے والے کافی ہیں، لیکن بامقصد تحریریں بہت ہی کم لوگ لکھتے ہیں، بعض لوگوں نے سوشل میڈیا کو اپنا دوستوں کا پلیٹ فارم سمجھ رکھا ہے کہ غیر ضروری باتیں لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے ہیں۔ اللہ کریم ان کو ہدایت عطا فرمائے۔